Daood Mohsin

داؤد محسن

معاصر افسانہ نگاروں میں شامل

One of the contemporary short story writers

داؤد محسن کی غزل

    میں نے کہا کہ دل میں تو ارمان ہیں بہت

    میں نے کہا کہ دل میں تو ارمان ہیں بہت اس نے کہا کہ آپ تو نادان ہیں بہت میں نے کہا کہ مجھ کو ہے جنت کی آرزو اس نے کہا کہ واقف ایمان ہیں بہت میں نے کہا کہ مہکا ہوا اک گلاب ہوں اس نے کہا زمیں پہ گلستان ہیں بہت میں نے کہا کہ میری پناہوں میں آئیے اس نے کہا کہ میرے نگہبان ہیں بہت میں نے ...

    مزید پڑھیے

    آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے

    آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے یہ عناد باہمی کا ہی فقط انجام ہے حق شناسی کا چلن ہم میں نہیں باقی رہا صبح اپنی پر الم ہے پر خطر ہر شام ہے حیف بربادیٔ گلشن اپنے ہی ہاتھوں ہوئی مفت میں باد خزاں کے سر پہ کیوں الزام ہے دھندلی دھندلی سی فضا ہے مہر اور اخلاص کی اب رفاقت آشتی اور ...

    مزید پڑھیے

    زنداں میں ہوں میں شہر نگاراں سے کیا مجھے

    زنداں میں ہوں میں شہر نگاراں سے کیا مجھے اس گلستاں کی باد بہاراں سے کیا مجھے وہ کام اپنا کر ہی گیا احتیاط سے یوں دیکھتے ہو دیدۂ حیراں سے کیا مجھے ویرانیاں ہیں گور غریباں سی ہر طرف لینا ہے آج شہر درخشاں سے کیا مجھے چھونے لگے ہیں ہاتھ مرے مہر و ماہ کو محفل کی آب و تاب چراغاں سے ...

    مزید پڑھیے

    اب بھی اپنا خیال رکھا ہے

    اب بھی اپنا خیال رکھا ہے ہم نے ایماں سنبھال رکھا ہے نور مولا نہیں تو کیا ہے جہاں خود کو ہر شے میں ڈھال رکھا ہے گم ہوا کب کا بھیڑ میں انساں شہر سارا کھنگال رکھا ہے ہے یہ دیوانگی کہ معصومی ایک طوفان پال رکھا ہے جسم کی ٹوٹتی فصیلوں میں ہم نے انساں بحال رکھا ہے اے اجل چاؤ سے بہت ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتاتے ہیں اشارات تمہیں کیا معلوم

    کیا بتاتے ہیں اشارات تمہیں کیا معلوم کتنے مشکوک ہیں حالات تمہیں کیا معلوم یہ الجھتے ہوئے جذبات تمہیں کیا معلوم ہیں یہی باعث آفات تمہیں کیا معلوم ایک آنگن کو فقط اپنے سجانے کے لیے کتنی جھیلیں ہیں مہمات تمہیں کیا معلوم راز ہستی کا ہے کیا مقصد ہستی کیا ہے حل طلب ہیں یہ سوالات ...

    مزید پڑھیے

    سمجھ رہے تھے کہ اپنی سدھر گئی دنیا

    سمجھ رہے تھے کہ اپنی سدھر گئی دنیا ہمیں تو مفت میں بدنام کر گئی دنیا مطالبوں سے نہیں مل سکی نجات کبھی ہوس کے زندہ تقاضوں سے بھر گئی دنیا ہر ایک آنکھ میں چڑھتا ہوا انا کا نشہ ہر ایک حرف وفا سے مکر گئی دنیا اسیر کر کے تباہی کے مجھ کو دلدل میں بتائے کون یہ مجھ کو کدھر گئی دنیا وہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنا ہو گر بنا کر کانچ کا گھر دیکھنا

    دیکھنا ہو گر بنا کر کانچ کا گھر دیکھنا کون برساتا ہے کس جانب سے پتھر دیکھنا میری پلکوں پر اٹی ہے گرد رنج و کرب کی درد آنکھوں میں سمایا ہے سمندر دیکھنا اپنی خامشی بنے گی جب فسانہ اے ندیم لوگ ہاتھوں میں لیے آئیں گے پتھر دیکھنا میں ہی اک حیراں نہیں ہوں دم بخود ہیں سب یہاں قوم کو ...

    مزید پڑھیے

    سہما ہے آسمان زمیں بھی اداس ہے

    سہما ہے آسمان زمیں بھی اداس ہے ہر گاؤں اور شہر میں خوف و ہراس ہے اک لمحۂ سکوں بھی میسر نہیں ہمیں تیرے بغیر اپنا ہر اک پل اداس ہے یہ کیسی دل کشی ہے یہاں کون آ گیا کیسی یہ روشنی سی مرے آس پاس ہے آوارگی کا نام ہے تہذیب نو یہاں آنکھوں میں شرم ہے نہ بدن پر لباس ہے دنیا میں اپنی آپ ...

    مزید پڑھیے

    تخم نفرت بو رہا ہے آدمی

    تخم نفرت بو رہا ہے آدمی آدمیت کھو رہا ہے آدمی زندگی کا نام ہے جہد مدام سو رہا ہے سو رہا ہے آدمی آگہی ہے شرط جینے کے لئے پھر بھی غافل ہو رہا ہے آدمی چل سکا نہ راہ پر اسلاف کی نقش پا اب کھو رہا ہے آدمی کاشف ذات خدا تھا سربسر اب نہیں ہے جو رہا ہے آدمی اپنے ہی اعمال پر پچھتا کے اب رو ...

    مزید پڑھیے

    ظہر عاشقی سے ڈرتا ہوں

    ظہر عاشقی سے ڈرتا ہوں حسن کی برہمی سے ڈرتا ہوں میں نے ڈالی کمند سورج پر پھر بھی میں روشنی سے ڈرتا ہوں آ بسا ہوں گلی میں چیخوں کی اس لیے خامشی سے ڈرتا ہوں مسخ پہچان ہو نہ جائے کہیں بے عمل زندگی سے ڈرتا ہوں کچھ صفائی میں اپنی کہنا ہے پر تری منصفی سے ڈرتا ہوں خار کو خار گل کو گل ...

    مزید پڑھیے