زنداں میں ہوں میں شہر نگاراں سے کیا مجھے
زنداں میں ہوں میں شہر نگاراں سے کیا مجھے
اس گلستاں کی باد بہاراں سے کیا مجھے
وہ کام اپنا کر ہی گیا احتیاط سے
یوں دیکھتے ہو دیدۂ حیراں سے کیا مجھے
ویرانیاں ہیں گور غریباں سی ہر طرف
لینا ہے آج شہر درخشاں سے کیا مجھے
چھونے لگے ہیں ہاتھ مرے مہر و ماہ کو
محفل کی آب و تاب چراغاں سے کیا مجھے
ہاتھوں کو زخم قلب کو مایوسیاں ملیں
اس کے سوا ملا ہے گلستاں سے کیا مجھے
محسنؔ شب سیاہ کا مارا ہوا ہوں میں
اب واسطہ ہو شمع شبستاں سے کیا مجھے