ظہر عاشقی سے ڈرتا ہوں
ظہر عاشقی سے ڈرتا ہوں
حسن کی برہمی سے ڈرتا ہوں
میں نے ڈالی کمند سورج پر
پھر بھی میں روشنی سے ڈرتا ہوں
آ بسا ہوں گلی میں چیخوں کی
اس لیے خامشی سے ڈرتا ہوں
مسخ پہچان ہو نہ جائے کہیں
بے عمل زندگی سے ڈرتا ہوں
کچھ صفائی میں اپنی کہنا ہے
پر تری منصفی سے ڈرتا ہوں
خار کو خار گل کو گل کہہ دوں
میں کہاں کب کسی سے ڈرتا ہوں
اپنی تنہائی خوب ہے محسنؔ
بزم کی بے رخی سے ڈرتا ہوں