اب بھی اپنا خیال رکھا ہے
اب بھی اپنا خیال رکھا ہے
ہم نے ایماں سنبھال رکھا ہے
نور مولا نہیں تو کیا ہے جہاں
خود کو ہر شے میں ڈھال رکھا ہے
گم ہوا کب کا بھیڑ میں انساں
شہر سارا کھنگال رکھا ہے
ہے یہ دیوانگی کہ معصومی
ایک طوفان پال رکھا ہے
جسم کی ٹوٹتی فصیلوں میں
ہم نے انساں بحال رکھا ہے
اے اجل چاؤ سے بہت ہم نے
نام تیرا وصال رکھا ہے
دیکھیں محسنؔ جواب کیا آئے
ان کے آگے سوال رکھا ہے