سمجھ رہے تھے کہ اپنی سدھر گئی دنیا

سمجھ رہے تھے کہ اپنی سدھر گئی دنیا
ہمیں تو مفت میں بدنام کر گئی دنیا


مطالبوں سے نہیں مل سکی نجات کبھی
ہوس کے زندہ تقاضوں سے بھر گئی دنیا


ہر ایک آنکھ میں چڑھتا ہوا انا کا نشہ
ہر ایک حرف وفا سے مکر گئی دنیا


اسیر کر کے تباہی کے مجھ کو دلدل میں
بتائے کون یہ مجھ کو کدھر گئی دنیا


وہ کیا ہوئے مرے پر کیف پر سکوں لمحے
مجھے تلاش ہے جس کی کدھر گئی دنیا


کٹی ہوئی ہے ہر اک شاخ پیڑ سے محسنؔ
لو برگ خشک سی اب کے بکھر گئی دنیا