بشریٰ سعید کی نظم

    مذہبی پیشوا

    خدا اور اس کے انصاف سے ڈرنے والے خطا پوش کمزور دل وجود اور نا وجود کا مناظرہ کرنے والے شکاریوں سے بہتر ہیں کہ ان کے پاس خوف زدہ ہونے کے لیے کوئی خدا موجود نہیں ہوتا وہ مذہب کی مساوات تحفوں سے ضرب دے کر مصلحتوں میں تقسیم کرتے ہیں اور فرض کیے گئے خدا کو بھوک کا کلیہ لگا کر سکے کے ...

    مزید پڑھیے

    درد حرف چننے لگے

    اس کی مردانگی کو میرے آنسوؤں کی حاجت تھی وہ میری روح کو اس وقت تک داغتا رہا جب تک اس کی پوروں میں مرد ہونے کا احساس نہیں اترایا اس کے مٹی وجود کو میں نے کھارے پانی سے گوندھ کر بے حسی کی بھٹی میں ڈال دیا وہ پتھر کا ہو گیا میں بین کرنے لگی ہوش آیا تو اسی بت کے آگے بچی کھچی تمنائیں ...

    مزید پڑھیے

    وجدان

    جب میری مٹی اور زمین سرد سفید چادر میں لپٹی ہجر کی رت میں سوچوں میں خزاں کی زردی ملا دی میں نے حرف دعا قرطاس قلب پر تیری یاد کی روشنائی سے لکھا اور محبت نے اشکوں کی مہر لگائی قبولیت کا طلب گار میرا جنون کسی کھائی سے ایک قدم کی دوری پر کھڑا آخری سمت نہیں دیکھ سکتا بے قرار دل اور ...

    مزید پڑھیے

    جواز

    خیال کے دسترخوان سے لذیذ ذائقے چکھتی محبت ادھوری ضیافت سے بھوک مٹانے کی عادی ہے گرم فضا جوشیلی ریت سے مستی میں مگن ہے جس صحرا کے دامن میں میرا خیمہ گڑا ہے وہیں کچھ فاصلے سے میرا گھوڑا چابک کے رقص کا منتظر ہے نقشے پر ابھرے دریا کی طرف پیش قدمی کا اجازت نامہ تو مل چکا مگر میں خود ...

    مزید پڑھیے

    ڈھول والا

    اس نے غربت کے بدن پہ بسنتی چولا پیلی پگڑی اور سنہری جیکٹ سجائی ہے وہ ٹوٹی کرسی پہ بوسیدہ ڈھول سے پیر ٹکائے ادھڑا وقت صبر کے دھاگے سے سیتا ہے سجی سنوری گاڑی پاس سے گزرے تو آس آنکھ میں چمکتی ہے اس کی بھوک لپکتی ہے اپنی خوشیوں کے آنگن میں ڈھول کی تھاپ پر اس کے غم کو ناچتا دیکھ رہی ...

    مزید پڑھیے

    دھبہ

    جانے کیسے اور کب ہوا کو پتا چلا اس دھبے کا جو چھپایا گیا نہ دھویا جسے تا عمر چھپانے کے لئے وہ نمایاں ہوئی وہ اک لکیر جو بخت میں لکھی گئی عین وسط میں بدن کے کھینچی گئی اس کی بیٹی اب تک یہ سوچتی ہے یہ کس کرم کا پھل ہے کس جرم کی سزا

    مزید پڑھیے

    وراثت

    دور کسی بستی کی نیم تاریک کوٹھری میں ایک تنگ چارپائی پہ کراہت زدہ کوکھ سے غیب کی مدد کو پکارتی آدھی چیخ پورے جگر سے پار ہوئی تو ننھی چلائی دل بیٹھ گئے ماں افق کے پار جا چکی تھی روایات کی قبر میں بے حسی کا کفن پہنا کے اسے تہذیب سے دفن کر دیا گیا اذیت میں مبتلا ذہنوں کو قسمت کی گولی ...

    مزید پڑھیے

    مزدور

    ایک مزدور کہ جس کے بدن نے کئی دنوں کی ان تھک ریاضت سیمنٹ ریت اور بجری کے بیچ کٹی تھی ایک پیالی چائے کی طلب بیلچے کی مٹی کے ساتھ اچھالی تھی فکر عیال کو لوہے کی ریڑھی پہ اینٹوں کے ساتھ دھکیلا تھا چند لمحے سستانے کی خواہش کو صبر کے ہتھوڑے سے کوٹ ڈالا تھا تب جا کر کہیں آخر کار آج اپنی ...

    مزید پڑھیے

    کچرے کا ڈھیر

    کاندھے پر قد سے لمبی بوری لٹکائے ایک بچہ کچرے کے اس ڈھیر کی جانب لپکتا ہے جہاں سے ناک بند کر کے گزرنا بھی دشوار لگتا ہے شام تک غلاظت کے اس پہاڑ سے وہ بدبو دار ڈبے بوتلیں اور بوسیدہ کاغذ چنے گا دن ڈھلے اپنی خواری کی سستی مزدوری جب پائے گا گھر جاتے ہوئے وہ خوشی کا راگ گائے گا مگر اس ...

    مزید پڑھیے

    چوکیدار

    ایک سافٹ ڈرنک کی قیمت میں دسمبر کی سردی میں جب ہمیں اپنے بستر سے دروازے تک جانا نا ممکن لگتا ہے وہ ہماری چھتوں کی نگہبانی ہڈیوں میں چھید کرتی یخ بستہ ہواؤں سے لڑ کر کرتا ہے کوئی نہیں جانتا اس کا اپنا گھرانا مہینے کی آخری تاریخیں کس اذیت سے کاٹتا ہے اور پھر اگلے مہینے کے پہلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2