درد حرف چننے لگے
اس کی مردانگی کو
میرے آنسوؤں کی حاجت تھی
وہ میری روح کو
اس وقت تک داغتا رہا
جب تک اس کی پوروں میں
مرد ہونے کا احساس نہیں اترایا
اس کے مٹی وجود کو
میں نے کھارے پانی سے گوندھ کر
بے حسی کی بھٹی میں ڈال دیا
وہ پتھر کا ہو گیا
میں بین کرنے لگی
ہوش آیا تو
اسی بت کے آگے
بچی کھچی تمنائیں بھینٹ کیں
اور سجدہ ریز ہو گئی
تپسیا امر ہوئی تو
درد حرف چننے لگے
اور میں نظمیں گنگنانے لگی