ڈھول والا
اس نے غربت کے بدن پہ
بسنتی چولا پیلی پگڑی
اور سنہری جیکٹ سجائی ہے
وہ ٹوٹی کرسی پہ
بوسیدہ ڈھول سے پیر ٹکائے
ادھڑا وقت
صبر کے دھاگے سے سیتا ہے
سجی سنوری گاڑی
پاس سے گزرے تو
آس آنکھ میں چمکتی ہے
اس کی بھوک لپکتی ہے
اپنی خوشیوں کے آنگن میں
ڈھول کی تھاپ پر
اس کے غم کو ناچتا دیکھ رہی ہوں
میں سوچ رہی ہوں
اس کی دوکان کا مہنگا سودا
کتنے سستے دام بکا ہے