وجدان

جب میری مٹی اور زمین
سرد سفید چادر میں لپٹی
ہجر کی رت میں
سوچوں میں خزاں کی زردی ملا دی
میں نے حرف دعا
قرطاس قلب پر
تیری یاد کی روشنائی سے لکھا
اور محبت نے
اشکوں کی مہر لگائی
قبولیت کا طلب گار
میرا جنون
کسی کھائی سے
ایک قدم کی دوری پر کھڑا
آخری سمت
نہیں دیکھ سکتا
بے قرار دل
اور رخسار کا تل
آسودہ خیال کی آمیزش کو
مٹی کے مرکب سے
جدا کرنے کا نسخہ نہیں جانتے
مگر آیت وصل کے درد سے
یہ معجزہ ہوا
مجھے ضرورت اور فطرت سے ماورا
محبت کی معنویت کا
قطبی ستارہ نظر آنے لگا