وراثت
دور کسی بستی کی
نیم تاریک کوٹھری میں
ایک تنگ چارپائی پہ
کراہت زدہ کوکھ سے
غیب کی مدد کو پکارتی
آدھی چیخ
پورے جگر سے پار ہوئی تو
ننھی چلائی
دل بیٹھ گئے
ماں افق کے پار
جا چکی تھی
روایات کی قبر میں
بے حسی کا کفن پہنا کے
اسے تہذیب سے دفن کر دیا گیا
اذیت میں مبتلا ذہنوں کو
قسمت کی گولی دے کر
سلا دیا گیا
اور وہ نو مولود بچی
اپنی جنم جلی ماں سے
نہیں کہہ پائی
دیکھ
وراثت تیرا خون پینے کے بعد
میری ایک اور ماں
کھوجنے نکل پڑی ہے