جواز

خیال کے دسترخوان سے
لذیذ ذائقے چکھتی محبت
ادھوری ضیافت سے
بھوک مٹانے کی عادی ہے
گرم فضا
جوشیلی ریت سے
مستی میں مگن ہے
جس صحرا کے دامن میں
میرا خیمہ گڑا ہے
وہیں کچھ فاصلے سے
میرا گھوڑا
چابک کے رقص کا منتظر ہے
نقشے پر ابھرے دریا کی طرف پیش قدمی کا
اجازت نامہ تو مل چکا
مگر میں خود اذیتی کی
تاریخی ترتیب میں
رد و بدل سے انکاری ہوں
جس وادی میں
مسکراہٹوں کا زعفرانی سورج
اور وصل کے کاسنی چاند کا بسیرا ہے
میں اس مسکن کی طرف
نہیں لوٹ سکتی
اگرچہ میری مجبور محبت
میری خود ساختہ زد سے تنگ ہے
مگر میں کیا کروں
میں نے محروم انسانوں کے
مشترکہ سرمائے میں
اپنا حصہ ڈال رکھا ہے