Bismil Saeedi

بسمل سعیدی

  • 1901 - 1976

کلاسیکی طرز معروف شاعر/ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد

Well-known poet of classical style / Disciple of Seemab Akbarabadi

بسمل سعیدی کی غزل

    غم نہیں ناز حسن ہے حسن کے ناز اٹھائے جا

    غم نہیں ناز حسن ہے حسن کے ناز اٹھائے جا اے دل مبتلائے‌ غم غم میں بھی مسکرائے جا حسن ہے عشق‌ آفریں حسن پہ دل لٹائے جا عشق کو درد دل بنا درد کو دل بنائے جا جلوہ بہ جلوہ گر نہیں پردہ بہ پردہ آئے جا دل میں مرے سمائے جا روح میں جگمگائے جا شورش کائنات میں غم کو خوشی بنائے جا ہنس مرے ...

    مزید پڑھیے

    فریب عقل میں مجنون عشق آ نہ سکا

    فریب عقل میں مجنون عشق آ نہ سکا بھلا دیا اسے آنکھوں نے دل بھلا نہ سکا فروغ حسن سے راتیں وہ جگمگا نہ سکا حریم عشق میں جو شمع دل جلا نہ سکا بھلا دیا ہو کبھی یاد کر کے ممکن ہے مگر میں بھول کے تجھ کو کبھی بھلا نہ سکا نہ دل ملا نہ ملیں دل کی لذتیں اس کو جو تیرے درد محبت کو دل بنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    التجائیں کرنے والے کو دعا سے کیا غرض

    التجائیں کرنے والے کو دعا سے کیا غرض جس کو ہو تجھ سے غرض اس کو خدا سے کیا غرض پی رہا ہے مسکرا کر جام صحت موت کا تیرے بیمار محبت کو شفا سے کیا غرض عشق کشتی اپنی خود کھیتا ہے اپنے زور پر نا خدا سے واسطہ کیا اور خدا سے کیا غرض میں ہوں اور اب آستان عشق کی ہیں عظمتیں اب مرے سجدوں کو ...

    مزید پڑھیے

    مری طرح کوئی نا کامیاب ہو نہ سکا

    مری طرح کوئی نا کامیاب ہو نہ سکا کسی نگاہ میں بھی انتخاب ہو نہ سکا خیال و خواب میں بھی کامیاب ہو نہ سکا مرا خیال کبھی ان کا خواب ہو نہ سکا چمن ہزار بہ رعنائی بہار رہا تمہارا حسن تمہارا شباب ہو نہ سکا مری نگاہ کے انداز شوق جب دیکھے حجاب کر نہ سکے وہ حجاب ہو نہ سکا جہان عشق میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    نیا سماں ہے نیا اک جہاں ہے اور ہم ہیں

    نیا سماں ہے نیا اک جہاں ہے اور ہم ہیں نئی زمین نیا آسماں ہے اور ہم ہیں نئے مقام نئے مرحلے نئی راہیں نئے ارادے نیا کارواں ہے اور ہم ہیں ہمارے نقش قدم ہیں یہ مہر و ماہ و نجوم ہماری راہ سر کہکشاں ہے اور ہم ہیں وہ جس حیات پہ تھی مرگ ناگہاں طاری وہی حیات ہے اور جاوداں ہے اور ہم ...

    مزید پڑھیے

    کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم

    کب سے الجھ رہے ہیں دم واپسیں سے ہم دو اشک پونچھنے کو تری آستیں سے ہم ہوگا تمہارا نام ہی عنوان ہر ورق اوراق زندگی کو الٹ دیں کہیں سے ہم سنگ در عدو پہ ہماری جبیں نہیں یہ سجدے کر رہے ہیں تمہاری جبیں سے ہم دہرائی جا سکے گی نہ اب داستان عشق کچھ وہ کہیں سے بھول گئے ہیں کہیں سے ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھا نہیں ہوں سایۂ دیوار دیکھ کر

    بیٹھا نہیں ہوں سایۂ دیوار دیکھ کر ٹھہرا ہوا ہوں وقت کی رفتار دیکھ کر ہم مشربی کی شرم گوارا نہ ہو سکی خود چھوڑ دی ہے شیخ کو مے خوار دیکھ کر کیا دیکھتا ہے اے دل مشتاق دید اب ہم نے تو کہہ دیا تھا خبردار دیکھ کر آنے لگی ہے عشق کو غیرت پر اپنی شرم شاید تری نگاہ کو بیزار دیکھ کر کیا ...

    مزید پڑھیے

    شراب عشق میں کیا جانے کیا تاثیر ہوتی ہے

    شراب عشق میں کیا جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہیں یہ زہر ہوتی ہے کہیں اکسیر ہوتی ہے نہ مفہوم اس کا فرقت ہے نہ منشا وصل ہے اس کا محبت اصل میں اک خواب خود تعبیر ہوتی ہے جدا ہو کر اسی میں جذب ہو جاتی ہے پھر اک دن محبت آفتاب حسن کی تنویر ہوتی ہے مرا ذوق نظر ہو یا ترا فیض تصور ہو مرے آئینے ...

    مزید پڑھیے

    رہنے کو ہم قفس میں رہے آشیاں سے دور

    رہنے کو ہم قفس میں رہے آشیاں سے دور لیکن چمن میں تھی یہ جگہ آسماں سے دور اس قرب سے جو سجدوں میں تجھ سے ہوا مجھے سجدے بھی ہیں مقابلتاً آستاں سے دور جتنا میں آشیاں میں قفس سے قریب تھا اتنا ہی اب قفس میں ہوں میں آشیاں سے دور حاصل نہ جس کی روح کو ہو قرب میکدہ وہ نا مراد رحمت پیر مغاں ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ ناز تری جب سے کارساز نہیں

    نگاہ ناز تری جب سے کارساز نہیں جگر میں درد نہیں قلب میں گداز نہیں نفس نہیں کوئی ایسا کہ جاں گداز نہیں یہ میرا عشق ہے زاہد تری نماز نہیں جسے فرشتوں سے قدرت چھپا کے رکھتی ہے شراب خانے میں وہ راز کوئی راز نہیں ہوس کی زندگیٔ جاوداں پہ لعنت ہے بلا سے عمر محبت اگر دراز نہیں تعلقات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5