نیا سماں ہے نیا اک جہاں ہے اور ہم ہیں

نیا سماں ہے نیا اک جہاں ہے اور ہم ہیں
نئی زمین نیا آسماں ہے اور ہم ہیں


نئے مقام نئے مرحلے نئی راہیں
نئے ارادے نیا کارواں ہے اور ہم ہیں


ہمارے نقش قدم ہیں یہ مہر و ماہ و نجوم
ہماری راہ سر کہکشاں ہے اور ہم ہیں


وہ جس حیات پہ تھی مرگ ناگہاں طاری
وہی حیات ہے اور جاوداں ہے اور ہم ہیں


گئی وہ قصۂ عہد کہن کی بات گئی
نیا زمانہ نئی داستاں ہے اور ہم ہیں


ہم اپنے سود و زیاں کے ہیں آپ ذمے دار
ہمارا سود ہمارا زیاں ہے اور ہم ہیں


وہی قفس جو کبھی آشیاں ہمارا تھا
وہی قفس ہے کہ اب آشیاں ہے اور ہم ہیں


ہوئے ہیں دیر و حرم سے ہمارے کچھ پیماں
ہمارے ان کے خدا درمیاں ہے اور ہم ہیں


ہر ایک رنگ کے پھول اس میں ہیں شریک بہار
ہمارا مشترک اک گلستاں ہے اور ہم ہیں


ہمیں بھی ذہن و فکر اپنے بدلنے ہیں بسملؔ
نئے خیال کا ہندوستاں ہے اور ہم ہیں