رہنے کو ہم قفس میں رہے آشیاں سے دور

رہنے کو ہم قفس میں رہے آشیاں سے دور
لیکن چمن میں تھی یہ جگہ آسماں سے دور


اس قرب سے جو سجدوں میں تجھ سے ہوا مجھے
سجدے بھی ہیں مقابلتاً آستاں سے دور


جتنا میں آشیاں میں قفس سے قریب تھا
اتنا ہی اب قفس میں ہوں میں آشیاں سے دور


حاصل نہ جس کی روح کو ہو قرب میکدہ
وہ نا مراد رحمت پیر مغاں سے دور


تجھ سے بھی دور تک کوئی ایسی جگہ نہیں
محفل میں اپنی تو نظر آئے جہاں سے دور


اس نا مراد سے جو ترے آستاں پہ ہے
اچھا ہے بد نصیب جو ہے آستاں سے دور


اب تک کوئی بتا نہ سکا راہ عشق میں
منزل کہاں سے پاس ہے بسملؔ کہاں سے دور