اپنے وعدوں کو فراموش نہ کر دینا تھا
اپنے وعدوں کو فراموش نہ کر دینا تھا ساز الطاف کو خاموش نہ کر دینا تھا اپنی نظروں سے اگر مجھ کو کیا تھا اوجھل اپنے دل سے تو فراموش نہ کر دینا تھا نہیں آتا تھا اگر ہوش میں لانا تم کو کسی کمبخت کو بے ہوش نہ کر دینا تھا ہر نفس موت کے قدموں کی صدا سننے کو زندگی کو ہمہ تن گوش نہ کر دینا ...