Bismil Arifi

بسمل عارفی

بسمل عارفی کی غزل

    ترے دیار تلک یوں تو آ ہی جاتے ہیں

    ترے دیار تلک یوں تو آ ہی جاتے ہیں یہ اور بات تصور میں جی جلاتے ہیں مری اداس نظر کا خیال ہے ورنہ اسے تو چاند ستارے بہت بلاتے ہیں تمام عمر بھٹکتے رہے جو صحرا میں انہیں یہ وہم کہ وہ راستہ دکھاتے ہیں ستم کی بھیک سہی دوستوں کا تحفہ ہے بڑی خوشی سے یہ احسان ہم اٹھاتے ہیں ہماری نظروں ...

    مزید پڑھیے

    جب وہ کہتا ہے سمندر ہے کنایہ اس کا

    جب وہ کہتا ہے سمندر ہے کنایہ اس کا رنگ یک لخت بدلتا ہے سراپا اس کا کب پکارے گا بھلا نام بھنور سے میرا کب بھلا آئے گا پھر موج میں دریا اس کا دل تو تہذیب انا کا ہے پرستار مگر کیا کرے کوئی جو ہو جائے اشارہ اس کا کب سنوارے گا وہ تقدیر مرے لفظوں کی کب نظر آئے گا اشعار میں چہرہ اس ...

    مزید پڑھیے

    خموشی میں بھی گویائی بہت ہے

    خموشی میں بھی گویائی بہت ہے سمجھنا ہو تو تنہائی بہت ہے مرا سرمایہ یادوں کی حویلی مری خاطر یہ انگنائی بہت ہے ڈبونا ہے تو لے چل دور مجھ کو کنارے پر تو رسوائی بہت ہے مری گمنامیاں مشہور ہوں گی تمہارا شہر بلوائی بہت ہے یہ دنیا ہے اسے پہچان بسملؔ ازل ہی سے یہ ہرجائی بہت ہے

    مزید پڑھیے

    جھنکار کا رشتہ تو ہے زنجیر سے سائیں

    جھنکار کا رشتہ تو ہے زنجیر سے سائیں کیوں لوگ پریشاں ہوئے تعبیر سے سائیں کچھ لوگ ابھی شہر میں ایسے بھی ہیں خوش پوش جو آگ لگا دیتے ہیں تقریر سے سائیں حق بولنے کا حوصلہ اب ہم میں نہیں ہے نسبت تو نکلتی رہی شبیر سے سائیں تدبیر پہ موقوف ہے دنیا کی حکومت ہم لوگ الجھتے رہے تقدیر سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2