ترے دیار تلک یوں تو آ ہی جاتے ہیں

ترے دیار تلک یوں تو آ ہی جاتے ہیں
یہ اور بات تصور میں جی جلاتے ہیں


مری اداس نظر کا خیال ہے ورنہ
اسے تو چاند ستارے بہت بلاتے ہیں


تمام عمر بھٹکتے رہے جو صحرا میں
انہیں یہ وہم کہ وہ راستہ دکھاتے ہیں


ستم کی بھیک سہی دوستوں کا تحفہ ہے
بڑی خوشی سے یہ احسان ہم اٹھاتے ہیں


ہماری نظروں کی پاکیزگی سلامت ہے
اسی کمال پہ دنیا کو ہم جھکاتے ہیں


یہ کربلا ہے تو اب لوٹ کر کہاں جائیں
تمام راستے اپنے یہیں پہ آتے ہیں


اسے جو منصب و جاہ و جلال پیارا ہے
تو ہم بھی کاسۂ تہمت کہاں اٹھاتے ہیں