خموشی میں بھی گویائی بہت ہے
خموشی میں بھی گویائی بہت ہے
سمجھنا ہو تو تنہائی بہت ہے
مرا سرمایہ یادوں کی حویلی
مری خاطر یہ انگنائی بہت ہے
ڈبونا ہے تو لے چل دور مجھ کو
کنارے پر تو رسوائی بہت ہے
مری گمنامیاں مشہور ہوں گی
تمہارا شہر بلوائی بہت ہے
یہ دنیا ہے اسے پہچان بسملؔ
ازل ہی سے یہ ہرجائی بہت ہے