جب وہ کہتا ہے سمندر ہے کنایہ اس کا

جب وہ کہتا ہے سمندر ہے کنایہ اس کا
رنگ یک لخت بدلتا ہے سراپا اس کا


کب پکارے گا بھلا نام بھنور سے میرا
کب بھلا آئے گا پھر موج میں دریا اس کا


دل تو تہذیب انا کا ہے پرستار مگر
کیا کرے کوئی جو ہو جائے اشارہ اس کا


کب سنوارے گا وہ تقدیر مرے لفظوں کی
کب نظر آئے گا اشعار میں چہرہ اس کا


خود کو اس طرح سے گمنام کیا ہے اس نے
شہر تو شہر رہا بھی نہیں صحرا اس کا


میں تو بدنام سہی خیر کوئی بات نہیں
چاند جو دیکھتا رہتا ہے دریچہ اس کا


ساتھ جب دونوں چلے تھے تو کہاں چوک ہوئی
میرا کوئی بھی نہیں اور زمانہ اس کا