Bimal Krishn Ashk

بمل کرشن اشک

مقبول شاعر، روزمرہ کے تجربات کو شاعری بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں، خوبصورت نظمیں اور غزلیں کہیں

Well-known poet, known for drawing upon day-to-day experiences of life

بمل کرشن اشک کی غزل

    جسم میں خواہش نہ تھی احساس میں کانٹا نہ تھا

    جسم میں خواہش نہ تھی احساس میں کانٹا نہ تھا اس طرح جاگا کہ جیسے رات بھر سویا نہ تھا اب یہی دکھ ہے ہمیں میں تھی کمی اس میں نہ تھی اس کو چاہا تھا مگر اپنی طرح چاہا نہ تھا جانے والے وقت نے دیکھا تھا مڑ کر ایک بار گو ہمیں پہچانتا کم تھا مگر بھولا نہ تھا ہم بہت کافی تھے اپنے واسطے ...

    مزید پڑھیے

    ان کی گود میں سر رکھ کر جب آنسو آنسو رویا تھا

    ان کی گود میں سر رکھ کر جب آنسو آنسو رویا تھا کچھ لمحے گزرے وہ لمحہ میری آنکھوں سے گزرا تھا اے ساٹن کے نیلے پردو تم پر یہ کس کا سایہ ہے کیا مجھ کو کچھ وہم ہوا ہے یا سچ مچ کوئی آیا تھا جیسے دروازہ وا کر کے نکلا ہے کوئی کمرے سے جیسے اک دو لمحے گزرے صوفے پر کوئی بیٹھا تھا سچ سچ کہنا ...

    مزید پڑھیے

    موم ہے آنکھوں کا پتھر دیکھ تو

    موم ہے آنکھوں کا پتھر دیکھ تو جیسے میں رویا ہوں رو کر دیکھ تو غم کی منزل اس قدر سونی نہیں دو گھڑی ہم راہ چل کر دیکھ تو راہ میں بھی تجھ سے تنہا لوگ ہیں گھر میں ہے گھر سے نکل کر دیکھ تو لو رکی تو کھڑکیاں کھلنے لگیں ہر دریچے میں ہے خنجر دیکھ تو تیرے جلووں سے مکاں بھر جائے گا عکس ہے ...

    مزید پڑھیے

    ایسے میں روز روز کوئی ڈھونڈتا مجھے

    ایسے میں روز روز کوئی ڈھونڈتا مجھے آواز دے رہی تھی ادھر کی ہوا مجھے ایسا ہوا کہ گھر سے نہ نکلا تمام دن جیسے کہ خود سے آج کوئی کام تھا مجھے پردے کے آس پاس کوئی باغ ہی نہ ہو کھڑکی کھلی تو پھول کا دھوکا ہوا مجھے یہ پیڑ جس پہ پھول نہ پتی نہ ٹہنیاں دس بیس سال بعد جو خود سا لگا ...

    مزید پڑھیے

    وہ رنگ و بو ہے کہ آنکھوں کو سوجھتا بھی نہیں

    وہ رنگ و بو ہے کہ آنکھوں کو سوجھتا بھی نہیں وہ پھول دل میں مکیں ہے کہ جو کھلا بھی نہیں یہ تیری یاد کہ دل سے پناہ مانگتی ہے یہ دل کہ جس سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں جو مجھ کو ڈھونڈ رہا تھا مرے مکان سے دور وہ میرے دل میں مکیں ہو کے بولتا بھی نہیں کبھی کبھی تو ہوس صبح دم اچھالتی ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    دل اے دل یہ طرز نہیں کچھ عشق کے عہدے داروں کی

    دل اے دل یہ طرز نہیں کچھ عشق کے عہدے داروں کی سنتے ہو مجبوروں کی اور کہتے ہو مختاروں کی پھر موجوں سے چیخ سی اٹھی مجھ کو تو یہ دھوکا ہے گئی رات بھی پتواروں سے خوب نبھی منجدھاروں کی یاد دلا دی ہے سورج کے آس پاس اک بدلی نے کالی قمیصوں کے سائے میں دھوپ سپید غراروں کی پیپل کے پتوں کے ...

    مزید پڑھیے

    کھلے جو آہ میں باب اثر نہ پہچانے

    کھلے جو آہ میں باب اثر نہ پہچانے خوشی کا رنگ غم معتبر نہ پہچانے اڑے جو چیل تو دیکھے لہو کی جھیل میں عکس شفق ڈھلے تو شریک سفر نہ پہچانے اگیں جو پھول تو دھرتی بھلی بھلی سی لگے زمیں کا درد تصور مگر نہ پہچانے ہوس کہ زیست کرے ریل کے سفر کی طرح سفر کے بعد شریک سفر نہ پہچانے تمام رات ...

    مزید پڑھیے

    جب چودھویں کا چاند نکلتا دکھائی دے

    جب چودھویں کا چاند نکلتا دکھائی دے وہ گیروا لباس بدلتا دکھائی دے دریائے زندگی کہ نگاہوں کا ہے قصور ٹھہرا دکھائی دے کبھی چلتا دکھائی دے پڑنے لگے جو زور ہوس کا تو کیا نگاہ ہر زاویے سے جسم نکلتا دکھائی دے بہروپئے کے ہاتھ پڑے ہیں سو رات دن دن رات رنگ روپ بدلتا دکھائی دے رکھے ہے ...

    مزید پڑھیے

    اتنا اچھا نہ اگر ہوتا تو ہم سا ہوتا

    اتنا اچھا نہ اگر ہوتا تو ہم سا ہوتا ہم نے دیکھا ہی نہ ہوتا تجھے چاہا ہوتا تو مرے پاس بھی ہوتا تو بھلا کیا ہوتا میرا ہو کر بھی اگر اور کسی کا ہوتا اب تو کچھ کچھ یہ سبھی سب ہی میں مل جاتے ہیں کوئی تو ہوتا کہ میں ہوتا تو اچھا ہوتا ننھے بچوں کی طرح سوتے ہیں ہنسنے والو تم نے ایسے میں ...

    مزید پڑھیے

    نہیں کہ میں تھا مرے دھیان میں نہیں آیا

    نہیں کہ میں تھا مرے دھیان میں نہیں آیا کچھ اتنا پاس تھا پہچان میں نہیں آیا وفا نہ تار گریباں نے کی نظر کی طرح نکل گیا تو گریبان میں نہیں آیا چھپا چھپا سا پھرا درد مسکراہٹ میں جو ساتھ تھے انہیں پہچان میں نہیں آیا ہزار بار تصور کے شہر سے گزرا وہ ایک شعر جو دیوان میں نہیں آیا ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4