نہیں کہ میں تھا مرے دھیان میں نہیں آیا
نہیں کہ میں تھا مرے دھیان میں نہیں آیا
کچھ اتنا پاس تھا پہچان میں نہیں آیا
وفا نہ تار گریباں نے کی نظر کی طرح
نکل گیا تو گریبان میں نہیں آیا
چھپا چھپا سا پھرا درد مسکراہٹ میں
جو ساتھ تھے انہیں پہچان میں نہیں آیا
ہزار بار تصور کے شہر سے گزرا
وہ ایک شعر جو دیوان میں نہیں آیا
ہم اشکؔ ڈھونڈتے پھرتے تھے کیا یہی چہرہ
کہ مل گیا ہے تو پہچان میں نہیں آیا