جس کی ہر بات میں قہقہہ جذب تھا میں نہ تھا دوستو
جس کی ہر بات میں قہقہہ جذب تھا میں نہ تھا دوستو وہ جو ہنستا ہنساتا تھا اس شہر میں ہو لیا دوستو ایک ایک کر کے اہل علم چل دیے شہر ویران ہے ایک لے دے کے میں بچ رہا ہوں سو مجھ میں ہے کیا دوستو ایک دو پھول تھے سکھ کے ٹہنی پہ سو وہ بھی مرجھا گئے ورنہ اس پیڑ پہ ہر سمے ہر طرف رنگ تھا ...