وہ خامشی ہے کہ خود سے ڈرا ہوا ہوں میں

وہ خامشی ہے کہ خود سے ڈرا ہوا ہوں میں
پتہ نہیں کسے آواز دے رہا ہوں میں


کچھ ایسے ڈھب سے گھٹا ہے گئے دنوں میں چاند
مرے یہ دھیان پڑا ہے کہ مٹ رہا ہوں میں


پلٹ رہوں گا ابھی گھر بہت اداس نہ ہو
پہاڑیوں سے گزرتی ہوئی صدا ہوں میں


ہوئی جو شام تو دل میں اداسیاں اتریں
چراغ جلنے لگے ہیں تو بجھ گیا ہوں میں


وہی شباب وہی بیکسی کبھی پہلے
گمان ہے کہ اسی راہ سے گیا ہوں میں


وہ ایک جسم وہی کوندتا لپکتا جسم
کہ جس کے رنگ کی نسبت سے جوگیا ہوں میں


کبھی کبھی مرے سپنوں کو چھین لیتی ہے
وہ اک نگاہ کہ جس کا لٹا ہوا ہوں میں


لبوں پہ ترک تعلق کی بات آتے ہی
ہر ایک زخم پکارا ابھی ہرا ہوں میں


کچھ ایسے ڈھب سے مجھے لوگ اشکؔ کہتے ہیں
کہ اپنے نام سے بیگانہ ہو چلا ہوں میں