دکھتی ہے روح پاؤں کو لاچار دیکھ کر
دکھتی ہے روح پاؤں کو لاچار دیکھ کر
رک جائیں گے کہیں کوئی دیوار دیکھ کر
سبکی نہ ہو کہیں طرف یار دیکھ کر
آنکھیں اٹھائیے بھی تو دستار دیکھ کر
نکلو جو بن سنور کے تو بازار دیکھ کر
مانگیں ہیں مول شکل خریدار دیکھ کر
کہنا تو بس یہی ہے کہ چاہیں ہیں ہم تجھے
گھبرائیو نہ بات کا بستار دیکھ کر
سستائے ہے ارادہ تساہل کے روبرو
دکھتے ہیں پاؤں سایۂ دیوار دیکھ کر
اپنوں سے منہ چھپائے پھرے ہے اک آدمی
جیبیں ٹٹول کے کبھی بازار دیکھ کر
ماروں ہوں ہاتھ پاؤں بہت اشکؔ خود کو میں
اپنے ہی بازوؤں میں گرفتار دیکھ کر