بلال اسود کی غزل

    وقت کا پہیہ چلا اور رات گہری ہو گئی

    وقت کا پہیہ چلا اور رات گہری ہو گئی شام آئی دن ٹلا اور رات گہری ہو گئی اتنا روشن تھا بدن میں دن ہی رہتا تھا مدام بے سبب ہی دل جلا اور رات گہری ہو گئی آخری دیدار تھا تیار تھا جس کے لیے ایسا مشکل مرحلہ اور رات گہری ہو گئی جاگنے والے نہ تھے جو دیکھتے اس کی چمک نیند سب کا مشغلہ اور ...

    مزید پڑھیے

    بدن پر زخم تھے اور استخواں میں دن نہیں تھا

    بدن پر زخم تھے اور استخواں میں دن نہیں تھا بہت تارے تھے اپنے آسماں میں دن نہیں تھا مری خواہش کے جتنا کب ہوا مجھ میں سراباں کہ بحر دشت کے کون و مکاں میں دن نہیں تھا اندھیرے میں تھے اپنے قہقہے بھی سسکیاں بھی ہمارے وصل کے سود و زیاں میں دن نہیں تھا بسنتی دھوپ تھی درکار ہریالی کی ...

    مزید پڑھیے

    شب کا پہرہ نہیں آخری پہر تک

    شب کا پہرہ نہیں آخری پہر تک صبح ہونے کو ہے موت کے شہر تک ڈبکیاں مارتا ہوں سرابوں میں میں ریت کے حوض پر دھوپ کی مہر تک شکر کرتے نہیں عارضی رنج کا صبر کرتے ہیں ہم دائمی قہر تک ہم ہی دوزخ روانہ ہوئے وقت سے ہم جو نا وقت سے آ گئے دہر تک حسن سے ماورا جسم سے ماسوا تک رہا ہوں اسے روح کے ...

    مزید پڑھیے

    بس خلا سے ہی صدائیں ہوئیں رد

    بس خلا سے ہی صدائیں ہوئیں رد اس لیے ساری دعائیں ہوئیں رد ہو گئیں ساری کتابیں ردی علم و دانش کی کتھائیں ہوئیں رد وہ جو پھوکٹ میں جئے اور مرے ان کے جسم اور چتائیں ہوئیں رد میز پر پیش ہوئی جب درخواست حبس دفتر میں ہوائیں ہوئیں رد شام پر شام ابد تھی بھائی کتنی بہنوں کی ردائیں ...

    مزید پڑھیے

    جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے

    جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے میں نے دریا صحرا ہوتے دیکھا ہے آنکھ میں موت کے کالے کالے آنسو ہیں خواب میں نیند کو گہرا ہوتے دیکھا ہے آنکھیں مونالیزا جیسی ہیں اس کی خاموشی کو چہرہ ہوتے دیکھا ہے دوڑا آتا ہے اب ہر آوازے پر آفیسر کو بہرا ہوتے دیکھا ہے جھیل کنارے بیٹھے بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    سنو جب غیب کا پر جاگتا ہے

    سنو جب غیب کا پر جاگتا ہے ہواؤں کا سمندر جاگتا ہے سبھوں میں جس نے کی تقسیم نیندیں خدا ہے جو برابر جاگتا ہے اگرچہ بجھ چکی ہے میری حیرت مگر اب بھی وہ منظر جاگتا ہے بڑی دلچسپ ہوتی ہے کہانی میں سوتا ہوں تو بستر جاگتا ہے کسی دن مار دوں گا آئنے پر جو مجھ میں ایک پتھر جاگتا ہے یقیں ...

    مزید پڑھیے

    پانی نہیں مزید میسر سے کیا بعید

    پانی نہیں مزید میسر سے کیا بعید جن پنگ سے کیا امید نریندر سے کیا بعید ہم تخت پر بٹھا دیں سمجھ کر جسے حسین اندر سے ہو یزید سکندر سے کیا بعید پرسے کو آئے اور مرا درد بھاگ جائے پھر زخم دے شدید ستم گر سے کیا بعید خواہش کو وہ دکھا دے حقیقت کا آئنہ ہو ہر دعا شنید مقدر سے کیا بعید وہ ...

    مزید پڑھیے

    چل خود کو لٹکا کر دیکھیں پھندے سے

    چل خود کو لٹکا کر دیکھیں پھندے سے وہم مجھے اکثر آتے ہیں گندے سے بار اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں کڑ کڑ آوازیں آتی ہیں کندھے سے ہم بھی لاشوں کے اس ڈھیر کا حصہ ہیں کس نے پار کیے انبار بلند ایسے بھوکے پیٹ کو کاٹیں گے جب کاتیں گے جیون پہیہ کب چلتا ہے چندے سے پڑھ کر پھر سے مر جاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کب خلا میں سورج کی ڈھے سے شام ہوتی ہے

    کب خلا میں سورج کی ڈھے سے شام ہوتی ہے بد دعا سی بد صورت شے سے شام ہوتی ہے آفتاب جب تھک کے حوض سے نکلتا ہے تب سراب زادوں کی نے سے شام ہوتی ہے گھونسلے بلاتے ہیں پنچھیوں کو پیڑوں میں جب فضا میں چیلوں کی قے سے شام ہوتی ہے کون دیکھ پاتا ہے رات کی سیاہ کاری دن کو ہوش آتا ہے مے سے شام ...

    مزید پڑھیے