سنو جب غیب کا پر جاگتا ہے
سنو جب غیب کا پر جاگتا ہے
ہواؤں کا سمندر جاگتا ہے
سبھوں میں جس نے کی تقسیم نیندیں
خدا ہے جو برابر جاگتا ہے
اگرچہ بجھ چکی ہے میری حیرت
مگر اب بھی وہ منظر جاگتا ہے
بڑی دلچسپ ہوتی ہے کہانی
میں سوتا ہوں تو بستر جاگتا ہے
کسی دن مار دوں گا آئنے پر
جو مجھ میں ایک پتھر جاگتا ہے
یقیں جتنی بھی گہری نیند میں ہو
کوئی وسواس اندر جاگتا ہے
چڑھاؤ چادریں سوئے ہوؤں پر
یہ کرنے سے مقدر جاگتا ہے
ہم اس گھر کی حفاظت کر رہے ہیں
مرے سوتے ہی جھینگر جاگتا ہے
مقدم کون ہے یہ بات چھوڑو
وجودوں میں بھی جوہر جاگتا ہے
چھپی بیٹھی ہے صحراؤں میں شبنم
کہیں کھیتوں میں بنجر جاگتا ہے
مجھے چھوتی ہے وہ اسودؔ سمجھ کر
بدن میں جس کے مرمر جاگتا ہے