چل خود کو لٹکا کر دیکھیں پھندے سے

چل خود کو لٹکا کر دیکھیں پھندے سے
وہم مجھے اکثر آتے ہیں گندے سے


بار اٹھانا سب کے بس کی بات نہیں
کڑ کڑ آوازیں آتی ہیں کندھے سے


ہم بھی لاشوں کے اس ڈھیر کا حصہ ہیں
کس نے پار کیے انبار بلند ایسے


بھوکے پیٹ کو کاٹیں گے جب کاتیں گے
جیون پہیہ کب چلتا ہے چندے سے


پڑھ کر پھر سے مر جاتے ہیں زندہ لوگ
قبروں کو بھیجے جاتے ہیں سندیسے


پھوٹے پیڑ کی شہ رگ سے زنگاری دھار
کام چلاؤ آرے سے یا رندے سے


دونوں ہیں مصروف بہت موبائل میں
بندہ اب کیا بات کرے گا بندے سے


بس تن کو اپناتے ہیں ٹھکراتے ہیں
ہم کو کیا لینا دھن سے اور دھندے سے