کب خلا میں سورج کی ڈھے سے شام ہوتی ہے

کب خلا میں سورج کی ڈھے سے شام ہوتی ہے
بد دعا سی بد صورت شے سے شام ہوتی ہے


آفتاب جب تھک کے حوض سے نکلتا ہے
تب سراب زادوں کی نے سے شام ہوتی ہے


گھونسلے بلاتے ہیں پنچھیوں کو پیڑوں میں
جب فضا میں چیلوں کی قے سے شام ہوتی ہے


کون دیکھ پاتا ہے رات کی سیاہ کاری
دن کو ہوش آتا ہے مے سے شام ہوتی ہے


روشنی کی سڑکوں پر خوف گنگناتا ہے
سر سے رات آتی ہے لے سے شام ہوتی ہے


میں پکڑ کے رکھتا ہوں تیرگی کو آنکھوں میں
کچھ سمجھ نہیں آتا کیسے شام ہوتی ہے


میرے عصر کا سورج بعد عصر اگتا ہے
پھر سیاہی کے حق میں جیسے شام ہوتی ہے


گیٹ کھٹکھٹاتا ہوں جب بھی دیر سے اسودؔ
اس کو رات لگتی ہے ویسے شام ہوتی ہے