پانی نہیں مزید میسر سے کیا بعید
پانی نہیں مزید میسر سے کیا بعید
جن پنگ سے کیا امید نریندر سے کیا بعید
ہم تخت پر بٹھا دیں سمجھ کر جسے حسین
اندر سے ہو یزید سکندر سے کیا بعید
پرسے کو آئے اور مرا درد بھاگ جائے
پھر زخم دے شدید ستم گر سے کیا بعید
خواہش کو وہ دکھا دے حقیقت کا آئنہ
ہو ہر دعا شنید مقدر سے کیا بعید
وہ دل دماغ اور زمانوں کے قفل کی
دے دے مجھے کلید قلندر سے کیا بعید
جب ڈوبنے کا وقت ہو جی اوبنے کا وقت
اس کی ہو یار عید سمندر سے کیا بعید
تجھ میں دکھیں ہزار ہزاروں میں تو دکھے
مشکوک جب ہو دید تو منظر سے کیا بعید
اسودؔ عجب نہیں کہ روایت رہے مدام
کہہ دے غزل جدید سخن ور سے کیا بعید