Bakhtiyar Ziya

بختیار ضیا

بھوپال کے شاعروں میں شامل، ترقی پسند تحریک سے متاثر رہے

One of the better-known poets of Bhopal, was influenced by Progressive Writers Movement

بختیار ضیا کی غزل

    رنج نا آسودگی کرب ہنر دیکھے گا کون

    رنج نا آسودگی کرب ہنر دیکھے گا کون نقش فریادی ہے کس کا دیدہ ور دیکھے گا کون جنبش لب ہی سے کھل جائے گا معنی کا بھرم اس کے حرف نا شنیدہ کا اثر دیکھے گا کون اپنی دنیا تک رکھو محدود پروازیں ابھی نیلگوں پہنائیوں میں بال و پر دیکھے گا کون اپنے کمرے کا کوئی گلدان خالی کیوں رہے پھول ...

    مزید پڑھیے

    دل کا سکون آنکھ کا تارا کسے کہیں

    دل کا سکون آنکھ کا تارا کسے کہیں یہ سوچنا پڑا ہے کہ اپنا کسے کہیں یہ شور انقلاب یہ ناقوس یہ اذاں ہنگامہ کون سا ہے تماشہ کسے کہیں رہبانیت کا جسم سے فسطائیت کی روح کس کو رفیق خون کا پیاسا کسے کہیں سب ملتے جلتے چہرے ہیں دشمن بھی دوست بھی قاتل کسے بتائیں مسیحا کسے کہیں ہر ذرۂ ...

    مزید پڑھیے

    چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں

    چلئے کہیں صحرا ہی میں اب خاک اڑائیں بستی میں تو سب جل گئیں خوابوں کی ردائیں بے چین ہے مضطر ہے پریشان ہے یہ روح کب تک اسے احساس کی سولی پہ چڑھائیں آنکھوں میں پڑھی جاتی ہے سائل کی ضرورت چہرے سے سنی جاتی ہیں خاموش صدائیں میں وقت کی رفتار کا رخ موڑ رہا ہوں وہ لوگ جو ڈرتے ہیں مرے ...

    مزید پڑھیے

    جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں

    جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں اس جہان رنگ و بو کو خاکداں سمجھا تھا میں وقت کی ٹھوکر نے ظاہر کر دئے جوہر مرے زندگی کو اپنی سنگ رائیگاں سمجھا تھا میں اس نے بھر دی جان و دل میں اک نئی تابندگی جس نگاہ گرم کو برق تپاں سمجھا تھا میں اپنی ہی کوتاہ دستی کا نکل آیا قصور کل ...

    مزید پڑھیے

    بکھیرے زلف رخ پر کون یہ بالائے بام آیا

    بکھیرے زلف رخ پر کون یہ بالائے بام آیا خیالوں کی فضا مہکی بہاروں کا پیام آیا مزاج یار میں جب بھی خیال انتقام آیا سر فہرست اپنا ہی گنہ گاروں میں نام آیا عجب ہنگامہ دیکھا ہم نے ساقی تیری محفل میں کوئی تشنہ دہن اٹھا کوئی چھلکا کے جام آیا گراں کوشی میں افرازی تن آسانی میں ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر دشت کوئی آبلہ پا مانگے ہے

    آج پھر دشت کوئی آبلہ پا مانگے ہے خار بھی تازگئ رنگ حنا مانگے ہے ضبط غم دسترس آہ رسا مانگے ہے یہ اندھیرا ترے عارض کی ضیا مانگے ہے جاں دہی تشنہ لبی آبلہ پائی بے سود دشت غربت تو کچھ اس کے بھی سوا مانگے ہے پھنک رہا ہے غم ہستی سے وجود انساں زندگی اب ترے دامن کی ہوا مانگے ہے آپ چپکے ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھو وجہ میری چشم تر کی

    نہ پوچھو وجہ میری چشم تر کی میاں پھر گر گئی دیوار گھر کی یہ مانا دھل گیا سورج سروں سے مرے آنگن کی دھوپ اب تک نہ سر کی جبیں تر خشک لب تلووں میں چھالے یہی روداد ہے اپنے سفر کی بدی نیکی اضافی مسئلے ہیں حکومت ہے دلوں پر صرف ڈر کی گمانوں کا مقدر ہے بھٹکتا یقیں نے ہر مہم دنیا کی سر ...

    مزید پڑھیے

    نکہت و رنگ نہ موسم کی ہوا ٹھہری ہے

    نکہت و رنگ نہ موسم کی ہوا ٹھہری ہے گل کی قسمت میں بہ ہر حال فنا ٹھہری ہے زخم دل کھل اٹھے ہنستے ہوئے پھولوں کی طرح ایک لمحے کو جہاں باد صبا ٹھہری ہے موت کو کہئے علاج غم ہستی لیکن زندگی کون سے جرموں کی سزا ٹھہری ہے اور منصور کوئی مشہد ہستی میں نہ تھا لائق دار جو اک میری انا ٹھہری ...

    مزید پڑھیے

    آج مائل بہ کرم اک بت رعنائی ہے

    آج مائل بہ کرم اک بت رعنائی ہے ساری دنیا مرے دامن میں سمٹ آئی ہے حسن مصروف تجلی و خود آرائی ہے وہ تماشہ ہی نہیں خود بھی تماشائی ہے آپ سے پہلے کہاں غم سے شناسائی تھی مل گئے آپ تو ہر غم سے شناسائی ہے اس طرح دیکھنا جیسے مجھے دیکھا ہی نہیں یہ ادا آپ کی خود مظہر یکتائی ہے چند کلیاں ...

    مزید پڑھیے

    دلبر کہا رفیق کہا چارہ گر کہا

    دلبر کہا رفیق کہا چارہ گر کہا جو کچھ بھی تم کو ہم نے کہا سوچ کر کہا وہ تم کہ ہم کو آج بھی مخلص نہ کہہ سکے اور ہم نے ساری عمر تمہیں معتبر کہا یہ رونقیں جہان کی منسوب تم سے کیں پھر ان تجلیوں کو حریم نظر کہا پرسش تری فریب تسلی تری فریب وہ دل کی بات تھی جسے دنیا کا ڈر کہا تیرے نقوش پا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2