نہ پوچھو وجہ میری چشم تر کی

نہ پوچھو وجہ میری چشم تر کی
میاں پھر گر گئی دیوار گھر کی


یہ مانا دھل گیا سورج سروں سے
مرے آنگن کی دھوپ اب تک نہ سر کی


جبیں تر خشک لب تلووں میں چھالے
یہی روداد ہے اپنے سفر کی


بدی نیکی اضافی مسئلے ہیں
حکومت ہے دلوں پر صرف ڈر کی


گمانوں کا مقدر ہے بھٹکتا
یقیں نے ہر مہم دنیا کی سر کی


نہ سایا ہے نہ شاخوں میں ثمر ہیں
ضرورت کیا ہے اب سوکھے شجر کی


جھلستی دھوپ بارش سرد راتیں
بہ ہر صورت ضیاؔ ہم نے بسر کی