نکہت و رنگ نہ موسم کی ہوا ٹھہری ہے

نکہت و رنگ نہ موسم کی ہوا ٹھہری ہے
گل کی قسمت میں بہ ہر حال فنا ٹھہری ہے


زخم دل کھل اٹھے ہنستے ہوئے پھولوں کی طرح
ایک لمحے کو جہاں باد صبا ٹھہری ہے


موت کو کہئے علاج غم ہستی لیکن
زندگی کون سے جرموں کی سزا ٹھہری ہے


اور منصور کوئی مشہد ہستی میں نہ تھا
لائق دار جو اک میری انا ٹھہری ہے


حسن مختار ہے ہر بات روا ہے اس کو
فطرت عشق تو پابند وفا ٹھہری ہے


کوئی نغمہ کوئی جھنکار کوئی ہوش ربا
دل ہی بہلا لیں طبیعت جو ذرا ٹھہری ہے