رنج نا آسودگی کرب ہنر دیکھے گا کون
رنج نا آسودگی کرب ہنر دیکھے گا کون
نقش فریادی ہے کس کا دیدہ ور دیکھے گا کون
جنبش لب ہی سے کھل جائے گا معنی کا بھرم
اس کے حرف نا شنیدہ کا اثر دیکھے گا کون
اپنی دنیا تک رکھو محدود پروازیں ابھی
نیلگوں پہنائیوں میں بال و پر دیکھے گا کون
اپنے کمرے کا کوئی گلدان خالی کیوں رہے
پھول کاغذ کے سجا لو سونگھ کر دیکھے گا کون
اک کھلونا توڑ کر چلتی بنی پاگل ہوا
اب یہ ریزہ ریزہ پیکر جوڑ کر دیکھے گا کون
کتنی تہذیبوں کا مدفن ہے ہماری زندگی
جگمگائے شہر میں لیکن کھنڈر دیکھے گا کون