Azad Gulati

آزاد گلاٹی

جدید غزل کے ممتاز شاعر، انگریزی کے پروفیسر رہے

Prominent modern ghazal poet, worked as professor of Englis

آزاد گلاٹی کی غزل

    کرب ہرے موسم کا تب تک سہنا پڑتا ہے

    کرب ہرے موسم کا تب تک سہنا پڑتا ہے پت جھڑ میں تو پات کو آخر جھڑنا پڑتا ہے کب تک اوروں کے سانچے میں ڈھلتے جائیں گے کسی جگہ تو ہم کو آخر اڑنا پڑتا ہے صرف اندھیرے ہی سے دیے کی جنگ نہیں ہوتی تیز ہواؤں سے بھی اس کو لڑنا پڑتا ہے سہی سلامت آگے بڑھتے رہنے کی خاطر کبھی کبھی تو خود بھی ...

    مزید پڑھیے

    میں بچھڑ کر تجھ سے تیری روح کے پیکر میں ہوں

    میں بچھڑ کر تجھ سے تیری روح کے پیکر میں ہوں تو مری تصویر ہے میں تیرے پس منظر میں ہوں اپنا مرکز ڈھونڈتا ہوں دائروں میں کھو کے میں کتنے جنموں سے میں اک محدود سے چکر میں ہوں خود ہی دستک دے رہا ہوں اپنے در پر دیر سے گھر سے باہر رہ کے بھی جیسے میں اپنے گھر میں ہوں میں وہ آذر ہوں جسے ...

    مزید پڑھیے

    میرا تو نام ریت کے ساگر پہ نقش ہے

    میرا تو نام ریت کے ساگر پہ نقش ہے پھر کس کا نام ہے جو ترے در پہ نقش ہے پھینکا تھا ہم پہ جو کبھی اس کو اٹھا کے دیکھ جو کچھ لہو میں تھا اسی پتھر پہ نقش ہے شاید ادھر سے گزرا ہے اک بار تو کبھی تیری نظر کا لمس جو منظر پہ نقش ہے تیرا خیال مجھ سے گو مل کر بچھڑ گیا اس کی مہک کا عکس مرے گھر ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ لمحہ اک نئی سعئ بقا کرتی ہوئی

    لمحہ لمحہ اک نئی سعئ بقا کرتی ہوئی کٹ رہی ہے زندگی خود کو فنا کرتی ہوئی تیری چپ ہے یا مرے اندر مچا کہرام ہے کوئی شے تو ہے زباں کو بے نوا کرتی ہوئی اپنے اندر ریزہ ریزہ ٹوٹ کر بکھرا ہوں میں ہے یہ کیا شے چور دل کا آئنا کرتی ہوئی کشت جاں سے دن کو کٹتی ہے نئے زخموں کی فصل رات آتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا

    آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا تجھ سے بچھڑا ہوں تو خود سے مل لیا اچھا ہوا زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں ایسا ہوا مدتوں ہم پر نہ تیری یاد کا سایا ہوا دل سے شاید تیرا غم بھی اب جدا ہونے کو ہے پھر رہا ہوں ان دنوں خود سے بھی میں الجھا ہوا تم چمکتی کار پھولوں کی مہک اک ...

    مزید پڑھیے

    دل کے صحرا پر دیتے ہیں جب اشکوں کے ساگر دستک

    دل کے صحرا پر دیتے ہیں جب اشکوں کے ساگر دستک روح کے سناٹے میں سنتا ہوں میں اندر باہر دستک اب تک ہر شب سوتے سوتے چونک اٹھتا ہوں تنہائی میں مدت بیتی میں نے سنی تھی اک شب اپنے در پر دستک شام کا ڈھلتا سورج دور افق پر ٹھہرا سوچ رہا ہے کب شب بیتے اور وہ دے پھر صبح کے دروازے پر ...

    مزید پڑھیے

    روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا

    روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا جس نے میرا ساتھ چھوڑا اور کسی کا ہو گیا سچ تو یہ ہے مجھ سے بھی بڑھ کر وہ تنہا ہو گیا وقت کا یہ موڑ کیسا ہے کہ تجھ سے مل کے بھی تجھ کو کھو دینے کا غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہم نے تنہائی کی چادر تان لی اور سو ...

    مزید پڑھیے

    ہماری آنکھ میں ٹھہرا ہوا سمندر تھا

    ہماری آنکھ میں ٹھہرا ہوا سمندر تھا مگر وہ کیا تھا جو صحرائے دل کے اندر تھا اسی کو زلف میں ٹانکے یہ آرزو کیوں کر وہ پھول جو کہ تری دسترس سے باہر تھا وہ وقت آئے گا جب خود تمہی یہ سوچو گی ملا نہ ہوتا اگر تجھ سے میں تو بہتر تھا ہر ایک انگ لبالب بھرا ہو جیسے جام تمہارا جسم تھا یا مے ...

    مزید پڑھیے

    آنے والے حادثوں کے خوف سے سہمے ہوئے

    آنے والے حادثوں کے خوف سے سہمے ہوئے لوگ پھرتے ہیں کہ جیسے خواب ہوں ٹوٹے ہوئے صبح دیکھا تو نہ تھا کچھ پاس الجھن کے سوا رات ہم بیٹھے رہے کس سوچ میں ڈوبے ہوئے اپنے دکھ میں ڈوب کر وسعت ملی کیسی ہمیں ہیں زمیں سے آسماں تک ہم ہی ہم پھیلے ہوئے آج آئینے میں خود کو دیکھ کر یاد آ گیا ایک ...

    مزید پڑھیے

    کبھی ملی جو ترے درد کی نوا مجھ کو

    کبھی ملی جو ترے درد کی نوا مجھ کو خموشیوں نے مجھی سے کیا جدا مجھ کو بدن کے سونے کھنڈر میں کبھی جلا مجھ کو میں تیری روح کی ضو ہوں نہ یوں بجھا مجھ کو میں اپنی ذات کی ہم سائیگی سے ڈرتا ہوں مرے قریب خدا کے لیے نہ لا مجھ کو میں چپ ہوں اپنی شکست صدا کی وحشت پر مجھے نہ بولنا پڑ جائے مت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3