لمحہ لمحہ اک نئی سعئ بقا کرتی ہوئی
لمحہ لمحہ اک نئی سعئ بقا کرتی ہوئی
کٹ رہی ہے زندگی خود کو فنا کرتی ہوئی
تیری چپ ہے یا مرے اندر مچا کہرام ہے
کوئی شے تو ہے زباں کو بے نوا کرتی ہوئی
اپنے اندر ریزہ ریزہ ٹوٹ کر بکھرا ہوں میں
ہے یہ کیا شے چور دل کا آئنا کرتی ہوئی
کشت جاں سے دن کو کٹتی ہے نئے زخموں کی فصل
رات آتی ہے انہیں پھر سے ہرا کرتی ہوئی
میرے ہونے سے نہ ہونے کا سبب پیدا ہوا
مجھ کو ہستی ہی تھی خود مجھ سے جدا کرتی ہوئی
موت تو آزادؔ ہے آزادیوں کا اک جہاں
زندگی ہے ہر نفس خود کو رہا کرتی ہوئی