دل کے صحرا پر دیتے ہیں جب اشکوں کے ساگر دستک
دل کے صحرا پر دیتے ہیں جب اشکوں کے ساگر دستک
روح کے سناٹے میں سنتا ہوں میں اندر باہر دستک
اب تک ہر شب سوتے سوتے چونک اٹھتا ہوں تنہائی میں
مدت بیتی میں نے سنی تھی اک شب اپنے در پر دستک
شام کا ڈھلتا سورج دور افق پر ٹھہرا سوچ رہا ہے
کب شب بیتے اور وہ دے پھر صبح کے دروازے پر دستک
بھیگی شب کے سناٹے میں ایسے اس کا دھیان آتا ہے
جیسے کسی تالاب کے پانی پر دیتا ہے کنکر دستک
اب تک ذہن پہ منڈلاتی ہے دکھ سی پیلی شام سلونی
دل میں آس نراس کی الجھن میں تنہا اس کا در دستک
ابھی تو امیدوں نے شیش محل میں رہنے کی سوچی تھی
ابھی سے کیوں دیتے ہیں در پر محرومی کے پتھر دستک
تن کا خالی برتن چھن سے بج اٹھا آزاد جب اس نے
اس پر اک شب دے دی پہن کر اک خواہش کی جھانجھر دستک