کرب ہرے موسم کا تب تک سہنا پڑتا ہے

کرب ہرے موسم کا تب تک سہنا پڑتا ہے
پت جھڑ میں تو پات کو آخر جھڑنا پڑتا ہے


کب تک اوروں کے سانچے میں ڈھلتے جائیں گے
کسی جگہ تو ہم کو آخر اڑنا پڑتا ہے


صرف اندھیرے ہی سے دیے کی جنگ نہیں ہوتی
تیز ہواؤں سے بھی اس کو لڑنا پڑتا ہے


سہی سلامت آگے بڑھتے رہنے کی خاطر
کبھی کبھی تو خود بھی پیچھے ہٹنا پڑتا ہے


شعر کہیں تو عقل و جنوں کی سرحد پر رک کر
لفظوں میں جذبوں کے نگوں کو جڑنا پڑتا ہے


جیون جینا اتنا بھی آسان نہیں آزادؔ
سانس سانس میں ریزہ ریزہ کٹنا پڑتا ہے