درخت دھوپ سے لڑتا ہے اس قدر دن بھر
درخت دھوپ سے لڑتا ہے اس قدر دن بھر پھلوں سے شاخوں سے رہتا ہے بے خبر دن بھر نہ آبشار نہ پنچھی نہ جانور نہ درخت عجیب دشت میں کرتا رہا سفر دن بھر ڈھلی جو شام تو بچے سا سو گیا سورج دکھا رہا تھا کئی طرح کے ہنر دن بھر مرے نصیب میں کیا اور کچھ لکھا ہی نہیں سفر میں رہتا ہوں گھر پر میں رات ...