جب اس کے سامنے سورج ہوا ندی کیا ہے
جب اس کے سامنے سورج ہوا ندی کیا ہے
ہم آدمی ہیں ہماری بساط ہی کیا ہے
بچھڑ کے گھر سے یہی سوچتا ہوں میں دن رات
شجر سے ٹوٹ کے پتوں کی زندگی کیا ہے
جلے مگر جو نہ روشن ہوئے زمانے میں
وہی چراغ سمجھتے ہیں روشنی کیا ہے
بس ایک رات کا مہمان ہے پرندہ یہاں
اسے پتہ ہی نہیں شاخ چاہتی کیا ہے
ہمارے آنسو جو چاہیں تو غرق ہو دنیا
ہمارے بارے میں دنیا یہ جانتی کیا ہے
کبھی خموش کبھی تیز رو بپھرتی ہے
پہاڑ سے کوئی پوچھے ذرا ندی کیا ہے