اتل اجنبی کی غزل

    درخت دھوپ سے لڑتا ہے اس قدر دن بھر

    درخت دھوپ سے لڑتا ہے اس قدر دن بھر پھلوں سے شاخوں سے رہتا ہے بے خبر دن بھر نہ آبشار نہ پنچھی نہ جانور نہ درخت عجیب دشت میں کرتا رہا سفر دن بھر ڈھلی جو شام تو بچے سا سو گیا سورج دکھا رہا تھا کئی طرح کے ہنر دن بھر مرے نصیب میں کیا اور کچھ لکھا ہی نہیں سفر میں رہتا ہوں گھر پر میں رات ...

    مزید پڑھیے

    سر پر ہمارے سایۂ دیوار بھی نہیں

    سر پر ہمارے سایۂ دیوار بھی نہیں سورج سا ہم فقیروں کا گھر بار بھی نہیں مجھ سے تعلقات کا اقرار بھی نہیں اور کوئی پوچھتا ہے تو انکار بھی نہیں گہرائی اس ندی کی بھلا کیا پتا لگے جس میں بھنور نہیں کوئی منجھدار بھی نہیں جس کو تمام عمر عمل میں نہ لا سکے ایسی وہ رائے دینے کا حق دار بھی ...

    مزید پڑھیے

    عجب خلوص عجب سادگی سے کرتا ہے

    عجب خلوص عجب سادگی سے کرتا ہے درخت نیکی بڑی خاموشی سے کرتا ہے میں اس کا دوست ہوں اچھا یہی نہیں کافی امید اور بھی کچھ دوستی سے کرتا ہے جواب دینے کو جی چاہتا نہیں اس کو سوال ویسے بڑی عاجزی سے کرتا ہے جسے پتہ ہی نہیں شاعری کا فن کیا ہے وہ کاروبار یہاں شاعری سے کرتا ہے سمندروں سے ...

    مزید پڑھیے

    بھلی ہو یا کہ بری ہر نظر سمجھتا ہے

    بھلی ہو یا کہ بری ہر نظر سمجھتا ہے ہر ایک شخص کی آہٹ کو گھر سمجھتا ہے ہر ایک در کو وہ اپنا ہی در سمجھتا ہے مگر زمانہ اسے در بہ در سمجھتا ہے پھل اور شاخ سمجھنے میں چوک جائیں مگر ہے کس جگہ کا پرندہ شجر سمجھتا ہے کچھ اس طرح سے دکھاتا ہے وہ ہنر اپنا کہ جیسے سب کو یہاں بے ہنر سمجھتا ...

    مزید پڑھیے

    کرم ہے اس کا کوئی بد دعا نہیں لگتی

    کرم ہے اس کا کوئی بد دعا نہیں لگتی مرے چراغ جلیں تو ہوا نہیں لگتی تمہارے پیار کی زنجیر میں بندھا ہوں میں سزا یہ کیسی ملی ہے سزا نہیں لگتی کسی سے پیار کرو اور تجربہ کر لو یہ روگ ایسا ہے جس میں دوا نہیں لگتی اگر زمانہ ہے ناراض تو رہے ناراض ہمیں کچھ اس میں تمہاری خطا نہیں لگتی یہ ...

    مزید پڑھیے

    جب اس کے سامنے سورج ہوا ندی کیا ہے

    جب اس کے سامنے سورج ہوا ندی کیا ہے ہم آدمی ہیں ہماری بساط ہی کیا ہے بچھڑ کے گھر سے یہی سوچتا ہوں میں دن رات شجر سے ٹوٹ کے پتوں کی زندگی کیا ہے جلے مگر جو نہ روشن ہوئے زمانے میں وہی چراغ سمجھتے ہیں روشنی کیا ہے بس ایک رات کا مہمان ہے پرندہ یہاں اسے پتہ ہی نہیں شاخ چاہتی کیا ...

    مزید پڑھیے

    اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے

    اک تھکن قوت اظہار میں آ جاتی ہے وقت کے ساتھ کمی پیار میں آ جاتی ہے بس کہیں چھور سمندر کا نظر آ جائے کوئی طاقت مری پتوار میں آ جاتی ہے وہ گزرتا ہے تو کھلتے ہیں دریچے گھر کے اک چمک سی در و دیوار میں آ جاتی ہے ٹوٹے گھنگھرو کی جو آواز ہوا کرتی ہے وہ کھنک کیوں مری گفتار میں آ جاتی ...

    مزید پڑھیے

    میرا نہیں ہے اور نہ کسی اور ہی کا ہے

    میرا نہیں ہے اور نہ کسی اور ہی کا ہے پرتو جہاں کہیں ہے تری روشنی کا ہے پنچھی درخت پھول تو منہ ڈھک کے سو گئے جنگل میں راج پاٹ بس اب چاندنی کا ہے لٹنے کا ڈر سہی پہ محبت کی راہ میں جانا تو اسی گلی سے ہر اک آدمی کا ہے برسوں پرانا زخم ہے ایسا ہرا مگر دیکھے طبیب تو وہ کہے آج ہی کا ...

    مزید پڑھیے

    وہ مسکرا کے دل و جاں پہ وار کرتا ہے

    وہ مسکرا کے دل و جاں پہ وار کرتا ہے کہ ایک تیر سے دو دو شکار کرتا ہے میں اس کو دوست سمجھنے لگا مگر مجھ کو وہ دشمنوں میں ابھی تک شمار کرتا ہے خیال میں بھی نہ آئے جو میرے دشمن کے وہ کام میرے لئے میرا یار کرتا ہے اس آدمی سے تو ہر وقت ہوشیار رہو جو دوسروں سے تمہیں ہوشیار کرتا ہے بس ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں یوں تو بلائیں بھی کام کرتی ہیں

    سفر میں یوں تو بلائیں بھی کام کرتی ہیں مگر کسی کی دعائیں بھی کام کرتی ہیں مشاعروں میں فقط شاعری نہیں چلتی مشاعروں میں ادائیں بھی کام کرتی ہیں چراغ ہوں نہ کوئی پھول ہوں یہاں پھر بھی مرے خلاف ہوائیں بھی کام کرتی ہیں کسی کے رونے سے میں بھی بکھرنے لگتا ہوں کہ آنسوؤں کی صدائیں بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2