درخت دھوپ سے لڑتا ہے اس قدر دن بھر
درخت دھوپ سے لڑتا ہے اس قدر دن بھر
پھلوں سے شاخوں سے رہتا ہے بے خبر دن بھر
نہ آبشار نہ پنچھی نہ جانور نہ درخت
عجیب دشت میں کرتا رہا سفر دن بھر
ڈھلی جو شام تو بچے سا سو گیا سورج
دکھا رہا تھا کئی طرح کے ہنر دن بھر
مرے نصیب میں کیا اور کچھ لکھا ہی نہیں
سفر میں رہتا ہوں گھر پر میں رات بھر دن بھر
سویرا ہوتے ہی سب کام پر نکلتے ہیں
اداس اداس سا رہتا ہے میرا گھر دن بھر
قبول کیسے دعا ہو بھلا چراغوں کی
کہ اپنی جان بھی رہ جائے معتبر دن بھر