توحید دل میں ہو تو لبوں پر رہے خدا
توحید دل میں ہو تو لبوں پر رہے خدا
ہم یوں جیے تو کیا جیے بے دین بے خدا
لو یوں تو ہو گئی ہے بہت کم ضمیر کی
اس آخری چراغ کو بجھنے نہ دے خدا
تو راہ راست اپنے کرم سے دکھا مجھے
رستے غلط ہزار ہیں دنیا میں اے خدا
طالب ہیں برتری کے مگر ہیں عمل سے دور
ہم کو جو کام کرنا ہے وہ کیوں کرے خدا
گر زانیوں کو ملتی نہیں ہے سزا یہاں
حوا کی بیٹیوں سے کشش چھین لے خدا
اب تو سکون بخش کہ اطہر شکیلؔ نے
اس عمر مختصر میں بہت دکھ سہے خدا