یہ عشق نامراد بھی کس گمرہی میں ہے

یہ عشق نامراد بھی کس گمرہی میں ہے
کھڑکی میں جو کبھی تھا وہ چہرہ گلی میں ہے


ہر صبح چھیڑتی ہیں ہواؤں کی انگلیاں
پوشیدہ ایک پھول جو ننھی کلی میں ہے


جیسے ہر ایک انگ ہے آنکھیں لیے ہوئے
کیا طرفہ احتیاط تری سادگی میں ہے


ناکام زندگی ہو کہ ناکام عشق ہو
جینے کی آرزو تو مری جاں سبھی میں ہے


زردار و حکمران میں انساں کا احترام
اگلی صدی میں تھا نہ یہ اب کی صدی میں ہے


تجھ سے بچھڑ کے سب کی نظر میں رہے گا کیا
اب تک تو یہ شکیلؔ تری روشنی میں ہے