جو انکار سر کے جھکانے کو ہے

جو انکار سر کے جھکانے کو ہے
گلا ہم سے سارے زمانے کو ہے


میسر ہے ہر دل عزیزی اسے
مروت بھی اس کی دکھانے کو ہے


یہ قصہ ہے دل کا نہ ہوگا تمام
ابھی اور کتنا سنانے کو ہے


نیا اک المیہ نئی ابتلا
خدا بھی ہمیں آزمانے کو ہے


عجب ہے یہ ویران صحرا یہاں
نہ تنکا کوئی آشیانے کو ہے


حرم سے بھی لوٹے تو اطہر شکیلؔ
سفر ان کا پھر بادہ خانے کو ہے