یہ تیرگیٔ شب ہی کچھ صبح طراز آتی
یہ تیرگیٔ شب ہی کچھ صبح طراز آتی خود وعدۂ فردا کی چھاتی بھی دھڑک جاتی ہونٹوں پہ ہنسی پیہم آتے ہوئے شرماتی اب رات نہیں کٹتی اب نیند نہیں آتی جو اول و آخر تھا وہ اول و آخر ہے میں نالہ بجاں اٹھتا وہ نغمہ بساز آتی سوز شب ہجراں پھر سوز شب ہجراں ہے شبنم بہ مژہ اٹھتی یا زلف دراز ...