یہ جہاں بارگہ رطل گراں ہے ساقی

یہ جہاں بارگہ رطل گراں ہے ساقی
اک جہنم مرے سینے میں تپاں ہے ساقی


جس نے برباد کیا مائل فریاد کیا
وہ محبت ابھی اس دل میں جواں ہے ساقی


ایک دن آدم و حوا بھی کیے تھے پیدا
وہ اخوت تری محفل میں کہاں ہے ساقی


ہر چمن دامن گل رنگ ہے خون دل سے
ہر طرف شیون و فریاد و فغاں ہے ساقی


ماہ و انجم مرے اشکوں سے گہر تاب ہوئے
کہکشاں نور کی ایک جوئے رواں ہے ساقی


حسن ہی حسن ہے جس سمت بھی اٹھتی ہے نظر
کتنا پر کیف یہ منظر یہ سماں ہے ساقی


زمزمہ ساز کا پائل کی چھناکے کی طرح
بہتر از شورش ناقوس و اذاں ہے ساقی


میرے ہر لفظ میں بیتاب مرا شور دروں
میری ہر سانس محبت کا دھواں ہے ساقی