یہ تیرگیٔ شب ہی کچھ صبح طراز آتی

یہ تیرگیٔ شب ہی کچھ صبح طراز آتی
خود وعدۂ فردا کی چھاتی بھی دھڑک جاتی


ہونٹوں پہ ہنسی پیہم آتے ہوئے شرماتی
اب رات نہیں کٹتی اب نیند نہیں آتی


جو اول و آخر تھا وہ اول و آخر ہے
میں نالہ بجاں اٹھتا وہ نغمہ بساز آتی


سوز شب ہجراں پھر سوز شب ہجراں ہے
شبنم بہ مژہ اٹھتی یا زلف دراز آتی


یارب وہ جوانی بھی کیا محشر ارماں تھی
انگڑائی بھی جب لیتی ایک آنکھ جھپک جاتی


آغاز سیہ مستی انجام سیہ مستی
آئینے میں صورت بھی آنے کی قسم کھاتی


سینے میں مجازؔ اب تک وہ جذبۂ کافر تھا
تثلیث کی جوئندہ وحدت کی قسم کھاتی