زہراب حسن
حسن اک کیف جاودانی ہے اور جو چیز ہے وہ فانی ہے حسن کے دن بھی کیف پرور ہیں حسن کی رات بھی سہانی ہے حسن کی صبح اک شکست جمیل حسن کی شام کامرانی ہے یہ کچھ افسانۂ تخیل ہے کچھ حقیقت کی ترجمانی ہے کچھ ترے حسن کا کرشمہ ہے کچھ مری طبع کی روانی ہے
معروف ترقی پسند شاعر،رومانی اور انقلابی نظموں کے لیے مشہور،آل انڈیا ریڈیوکے رسالہ آواز کے پہلے مدیر،معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے ماموں
One of the most famous Progressive poets known for romantic & revolutionary poetry. He was maternal Uncle to film lyricist Jawed Akhtar.
حسن اک کیف جاودانی ہے اور جو چیز ہے وہ فانی ہے حسن کے دن بھی کیف پرور ہیں حسن کی رات بھی سہانی ہے حسن کی صبح اک شکست جمیل حسن کی شام کامرانی ہے یہ کچھ افسانۂ تخیل ہے کچھ حقیقت کی ترجمانی ہے کچھ ترے حسن کا کرشمہ ہے کچھ مری طبع کی روانی ہے
دیر و کعبہ کا میں نہیں قائل دیر او کعبہ کو آستاں نہ بنا مجھ میں تو روح سرمدی مت پھونک رونق بزم عارفاں نہ بنا دشت ظلمات میں بھٹکنے دے میری راہوں کو کہکشاں نہ بنا عشرت جہل و تیرگی مت چھین محرم راز دو جہاں نہ بنا بجلیوں سے جہاں نہ ہو چشمک اس گلستاں میں آشیاں نہ بنا خار چشم حریف رہنے ...
درد و غم حیات کا درماں چلا گیا وہ خضر عصر و عیسیٔ دوراں چلا گیا ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا رقصاں چلا گیا نہ غزل خواں چلا گیا سوز و گداز و درد میں غلطاں چلا گیا برہم ہے زلف کفر تو ایماں سرنگوں وہ فحر کفر و نازش ایماں چلا گیا بیمار زندگی کی کرے ...
بصد غرور بصد فخر و ناز آزادی مچل کے کھل گئی زلف دراز آزادی مہہ و نجوم ہیں نغمہ طراز آزادی وطن نے چھیڑا ہے اس طرح ساز آزادی زمانہ رقص میں ہے زندگی غزل خواں ہے زمانہ رقص میں ہے زندگی غزل خواں ہے ہر اک جبیں پہ ہے اک موج نور آزادی ہر اک آنکھ میں کیف و سرور آزادی غلامی خاک بسر ہے ...
الہ آباد میں ہر سو ہیں چرچے کہ دلی کا شرابی آ گیا ہے بہ صد آوارگی یا صد تباہی بہ صد خانہ خرابی آ گیا ہے گلابی لاؤ چھلکاؤ لنڈھاؤ کہ شیدائے گلابی آ گیا ہے نگاہوں میں خمار بادہ لے کر نگاہوں کا شرابی آ گیا ہے وہ سرکش رہزن ایوان خوباں بہ عزم باریابی آ گیا ہے وہ رسوائے جہاں ناکام ...
رخصت اے دلی تری محفل سے اب جاتا ہوں میں نوحہ گر جاتا ہوں میں نالہ بہ لب جاتا ہوں میں یاد آئیں گے مجھے تیرے زمین و آسماں رہ چکے ہیں میری جولاں گاہ تیرے بوستاں تیرا دل دھڑکا چکے ہیں میرے احساسات بھی تیرے ایوانوں میں گونجے ہیں مرے نغمات بھی رشک شیراز کہن ہندوستاں کی آبرو سر زمین ...
کلیجہ پھنک رہا ہے اور زباں کہنے سے عاری ہے بتاؤں کیا تمہیں کیا چیز یہ سرمایہ داری ہے یہ وہ آندھی ہے جس کی رو میں مفلس کا نشیمن ہے یہ وہ بجلی ہے جس کی زد میں ہر دہقاں کا خرمن ہے یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے یہ انسانی بلا خود خون انسانی ...
ہو نہیں سکتا تری اس ''خوش مذاقی'' کا جواب شام کا دل کش سماں اور تیرے ہاتھوں میں کتاب رکھ بھی دے اب اس کتاب خشک کو بالائے طاق اڑ رہا ہے رنگ و بو کی بزم میں تیرا مذاق چھپ رہا ہے پردۂ مغرب میں مہر زر فشاں دید کے قابل ہیں بادل میں شفق کی سرخیاں موجزن جوئے شفق ہے اس طرح زیر سحاب جس طرح ...
خود کو بہلانا تھا آخر خود کو بہلاتا رہا میں بہ ایں سوز دروں ہنستا رہا گاتا رہا مجھ کو احساس فریب رنگ و بو ہوتا رہا میں مگر پھر بھی فریب رنگ و بو کھاتا رہا میری دنیائے وفا میں کیا سے کیا ہونے لگا اک دریچہ بند مجھ پر ایک وا ہونے لگا اک نگار ناز کی پھرنے لگیں آنکھیں مجازؔ اک بت کافر کا ...
یہ کون آ گیا رخ خنداں لیے ہوئے عارض پہ رنگ و نور کا طوفاں لیے ہوئے بیمار کے قریب بصد شان احتیاط دل داریٔ نسیم بہاراں لیے ہوئے رخسار پر لطیف سی اک موج سر خوشی لب پر ہنسی کا نرم سا طوفاں لیے ہوئے پیشانیٔ جمیل پہ انوار تمکنت تابندگیٔ صبح درخشاں لیے ہوئے زلفوں کے پیچ و خم میں بہاریں ...