اسریٰ رضوی کی نظم

    وقت کے دھماکوں نے دھوم ایسی ڈالی ہے

    لوگ سہمے سہمے ہیں ہر طرف سیاست ہے بے پناہ وعدے ہیں لچھے دار باتیں ہیں لفظ کے جھمیلے ہیں یہ کسی کا دعویٰ ہے آزمودہ نسخہ اک موت سے مفر کا ہے خود کو کہہ خدا کوئی حاکم زمانہ بن جبر و قہر کرتا ہے عام لوگ سب کہ سب بول بازیوں سے اب بے پناہ عاجز ہیں

    مزید پڑھیے

    خزاں کا موسم

    زوال پر تھی بہار کی رت خزاں کا موسم عروج پر تھا اداسیاں تھیں ہر ایک شے پر چمن سے شادابیاں خفا تھیں ان ہی دنوں میں تھی میں بھی تنہا اداسی مجھ کو بھی ڈس رہی تھی وہ گرتے پتوں کی سوکھی آہٹ یہ صحرا صحرا بکھرتی حالت ہمی کو میری کچل رہی تھی میں لمحہ لمحہ سلگ رہی تھی مجھے یہ عرفان ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    وصل کی جو خواہش ہے

    یہ بہت رلاتی ہے رات بھر جگاتی ہے چین لینے دیتی ہے اور نہ رونے دیتی ہے یوں تو ایک مدت سے تم سے ہم ہیں بیگانہ ساتھ چلتے رہنے کا نہ تو کوئی وعدہ ہے پھر بھی دل میں جانے کیوں اک خلش سی رہتی ہے دل میں یہ خیال اکثر آ کے ٹھہر جاتا ہے ساتھ ساتھ چلتے ہم زندگی کے رستوں پر ہر سفر ہنسی ہوتا تم جو ...

    مزید پڑھیے

    خواب اک جزیرہ ہے

    جس کے چاروں‌ سمت اب تک پانیوں کا ریلا ہے ایسا سرد پانی کہ جس میں کوئی اترے تو روح سرد پڑ جائے کانپ جائے سارا تن کون یہ سمجھتا ہے خواب کتنے ضدی ہیں گول گول لہروں میں ڈوب کر ابھرنے کا حوصلہ سمیٹے یہ ایسے کود پڑتے ہیں جیسے کوئی مدت سے پیاس میں تڑپتا ہو اور سامنے اس کے صرف ایک کوزہ ...

    مزید پڑھیے

    وہی ہوا نا کہ جس کا ڈر تھا

    بچھڑ گئے تم بدل گئے تم یہ رت جو بدلی بدل گیا سب وفا کی باتیں ملن کی راتیں وہی ہوا نا کہ جس کا ڈر تھا اداسی آنکھوں میں بس گئی ہے رنگ سارے پڑے ہیں پھیکے تمہارے جذبے کی اک لہر سے اجڑ گئی ہے ہماری دنیا وہی ہوا ہے کہ جس کا ڈر تھا

    مزید پڑھیے

    پردیسی کا خط

    ہماری دوری کے موسموں کو اے جان جاناں نصاب رکھنا میں تم سے ملنے کو آؤں گا جب ورق ورق تم کتاب رکھنا سبھی شکایات یاد کر کے سزاؤں کا بھی حساب رکھنا خلش ہے جو بھی تمہارے دل میں مرے لیے انتساب رکھنا سوال جتنے ہوں دل میں چبھتے انہیں فراغت سے پوچھ لینا مری محبت کا پاس کرنا مجھے مکمل جواب ...

    مزید پڑھیے

    انتہا محبت کی دیکھنا جو چاہو تو

    موج لیتے ساحل پر یا کسی ویرانے میں شام کے دھندلکے میں تیز چڑھتی سانسوں میں انتہا محبت کی دیکھنا جو چاہو تو دن نکلتے لمحوں میں ننگے پیر چلتے تم آؤ ایسے صحرا میں جس میں مختلف رنگوں مختلف قبیلوں کے ڈھیر سارے پنچھی ہوں ان کی بولیوں پر پھر غور سے توجہ دو یہ چہکتے پنچھی سب اپنی اپنی ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر میں اب آئنہ سامانی کرو ہو

    اس شہر میں اب آئنہ سامانی کرو ہو تم جس پہ ازل سے ہی حکمرانی کرو ہو اک عرصہ ہوا کوچۂ جاناں ہوا ویران پھر بھی تم اسی شہر کی نگرانی کرو ہو پھول اگتے تھے جس جا وہیں اگ آئیں ہیں کانٹے کیا ایسے گلستاں کی نگہبانی کرو ہو ہر بات سر بزم بھلا کرتا ہے کوئی کیوں اپنے ہی جذبات کی عریانی کرو ...

    مزید پڑھیے

    آؤ چلیں اس کھنڈر میں

    جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا کچھ یادیں ان میں باقی ہیں فریادیں بھی کچھ باقی ہیں شہنائی کا ہے کوئی مدھم سر ان دیواروں میں گونج رہا آؤ چلیں اس کھنڈر میں جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا کچھ سائے ہمارے بچپن کے کچھ یاد ہمارے لوگوں کی اس کھنڈر سے وابستہ ہیں تھی نقش بہت سی تصویریں اس کھنڈر کی دیواروں پر تم ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں سے سجا اک سیج دکھا

    چمکیلا سا بھڑکیلا سا اطراف میں جس کے جنتا تھی اسٹیج پہ کچھ سجن تھے کھڑے کچھ جھنڈے تھے کچھ نعرے تھے کچھ لمبی لمبی باتیں تھیں کچھ بھاری بھاری وعدے تھے ان باتوں کا ان وعدوں کا بس ہم سے اتنا رشتہ ہے کے ووٹ انہیں ہم دیں دیں سب سرکار انہیں کی چن لیں ہم راج انہیں کا چلنے دیں ہر سمت انہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2