انتہا محبت کی دیکھنا جو چاہو تو

موج لیتے ساحل پر
یا کسی ویرانے میں
شام کے دھندلکے میں
تیز چڑھتی سانسوں میں
انتہا محبت کی دیکھنا جو چاہو تو
دن نکلتے لمحوں میں
ننگے پیر چلتے تم
آؤ ایسے صحرا میں
جس میں مختلف رنگوں
مختلف قبیلوں کے ڈھیر سارے پنچھی ہوں
ان کی بولیوں پر پھر غور سے توجہ دو
یہ چہکتے پنچھی سب
اپنی اپنی بولی میں
بات چیت کرتے ہیں
اپنے دکھ سبھی مل کے
کیسے بانٹ لیتے ہیں
اس سے زیادہ اور کچھ تم
دیکھنا جو چاہو تو
انتہا محبت کی دیکھنا جو چاہو تو
ساحل سمندر پر
زرد ریت کے اندر
پنپے وہ سبھی پودے
کس طرح یہ پلتے ہیں
کس طرح ابھرتے ہیں
کیسے ریت کے نیچے
پانی ان کو ملتا ہے
انتہا محبت کی اس جگہ پہ ملتی ہے
ہم عظیم لوگوں میں فلسفہ محبت کا
صرف سوچا جاتا ہے صرف لکھا جاتا ہے